Ticker

6/recent/ticker-posts

لیاری گینگ وار کی یادیں، باتیں

سن 90 کی دہائی تھی۔ میرے بھائی سید امداد حسین پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی تھے۔ ان کا سوئم تھا، تعزیت کے لیے سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد احمد شاہ بخاری روڈ پر قائم طفیل احمد شاہ منزل پر موجود تھی جن میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب اور دیگر معروف ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات بھی تھیں۔ نماز ظہر کے بعد طعام کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک خوبرو اسمارٹ نوجوان کو میں نے مہمانوں کے سامنے چاول کی پلیٹیں رکھواتے دیکھا، اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ معزز مہمانوں کی خاطر و مدارات پوری توجہ اور ذمے داری سے کرے۔ 

دوسرے دن مجھے کسی نے اطلاع دی کہ چاچا قبرستان جانا ہے، آپ گاڑی میں آجائیں، گاڑی روانہ ہوئی تو وہی نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا، اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگا ’’چاچا میں عزیر ہوں، فیض محمد فیضو کا بیٹا۔‘‘ یہی وہ نوجوان تھا جو عزیر بلوچ بن کر گینگ وار کی تاریخ کا انوکھا اور پراسرار کردار بن گیا، اور یہ اسی پرامن اور فٹبال و باکسنگ کی معرکہ آرا بستی کی کہانی ہے جس کی گلیاں گینگ وار کے زمانے میں سانپوں اور اژدہوں کی طرح پھنکارتی تھیں، چوراہے مشکوک اور موت کا کنواں بن چکے تھے، کل کے جگری یار ، ملنسار دوست آج کے رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو بنے ہوئے تھے، لوگوں کے کاروبار تباہ ، گھر، ہوٹلز، دودھ کی دکانیں ویران تھیں۔

لیاری گینگ وار کے راجاؤں مہاراجاؤں میں بٹے ہوئے تھے، کہیں جبار جینگو کی بادشاہی ، کہیں راشد ریکھا کی ریکھائیں دلربائی کے ہولناک جلوے دکھاتی تھیں، ادھر شیراز کامریڈ کی لی مارکیٹ میں حکمرانی ’’ان چیلنجڈ‘‘ تھی، غفاز ذکری کی ارشد پپو سے دشمنی لیاری کو انگار وادی بنائے ہوئے تھی۔ سردار رحمٰن کا سب پر کنٹرول تھا، ایک دہشت انگیز مرکزیت تھی۔ سردار رحمن ہی نے عزیر بلوچ کو پیشکش کی کہ وہ اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لیے اس کے گروپ میں شامل ہو جائے اور دشمنوں سے انتقام لے۔ لیاری اس سے پہلے کبھی ایسی تو نہ تھی، اس کی سیاسی شناخت مٹی میں مل گئی، اسپورٹس کے میدان رونق سے محروم ہو گئے. 

جی ہاں ۔ لیاری میں منشیات اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی سے کسی کو انکار نہیں، بعض سینئر صحافیوں کے بقول لیاری کے منشیات کے اڈے تو قیام پاکستان سے قبل بھی قائم تھے، اور شہر قائد میں صرف لیاری منشیات کا بدنام استعارہ نہ تھا۔ مگر عزیر بلوچ گینگ وار کی تاریک راہوں پر چلنے سے پہلے لیاری کے مشہور ٹرانسپورٹر خانوادے کا فرد تھا، اس کے والد اور عزیر کے نام سے بڑی بسوں کا فلیٹ سندھ ، بلوچستان روٹ پر الفیض اور العزیر ٹرانسپورٹ کے نام سے رات دن گردش میں رہتا تھا، ٹرانسپورٹ بزنس ان دنوں لیاری کا اسٹیٹس سمبل تھا، دیگر معاصر ٹرانسپورٹر ہوکنا، نادرشاہ، جیلانی ،حسین سیٹھ ٹرانسپورٹ سے وابستہ اہم کاروباری نام تھے۔

عزیر بلوچ کی آمدورفت لیاری کے مختلف علاقوں میں تھی اس کی گینگ وار دنیا میں انٹری دہشتوں کی ماری لیاری میں ایک دبنگ واقعہ تھا۔ ایک رات میں اپنے بھتیجے کی شادی کی تقریب کے دوران گھر سے باہر عارضی فٹ پاتھ پر کرسیوں پر بیٹھا دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھا، شادی کی خوشی میں شریک خواتین ، بچے اور دور سے آنے والے مہمانوں کے آخری قافلے واپسی کا سامان باندھ رہے تھے رات کے ایک بج رہے تھے، مجھے خود بھی نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا کہ اچانک دبئی چوک سے موٹرسائیکل سواروں کا ایک طوفانی ریلا سامنے آکر رکا، ان دنوں عمومی فضا دھماکا خیز تھی، عقبی گلی میں بابا لاڈلا کی رہائش گاہ تھی اور سامنے علی محمد محلہ غفاز ذکری کے کنٹرول میں تھا ، دونوں گروپوں کی باہمی کشمکش اور تصادم آرائی عروج پر تھی، کئی بار فائرنگ میں ہمیں اپنے گھروں کے اندر جانے کا حکم ملتا اور سڑک ویران ہو جاتی، مگر اس وقت موٹرسائیکل سواروں کا گروپ شادی کی مبارکباد دینے کے لیے وارد ہوا تھا۔

میں ساتھ بیٹھے کسی دوست سے گفتگو میں مصروف تھا کہ مجھے واجد شاہ نے کان میں سرگوشی کی کہ ’’ چاچا دیکھو تو آپ کے رائٹ سائڈ پر کون مہمان آیا ہے،‘‘ میں نے مہمان کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جو چپکے سے میرے ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھا تھا اور میرے رد عمل کو نوٹ کرنے کا منتظر نکلا، اس نے ماؤ کیپ نیچے کرتے ہوئے اپنی آنکھیں چھپائی تھیں، مسکرایا اور کہنے لگا ’’چاچا میں عزیر ہوں۔‘‘ ساری محفل اس انکشاف پر مسرور ہوئی، کچھ دیر بلوچی حال احوال کہہ سن کر وہ اٹھا ، جھک کر سلام کیا اور یہ جا وہ جا۔ جب دن گزرتے گئے اور رحمن بلوچ کا اس کے تین ساتھیوں کے ساتھ بلوچستان میں وندر کے قریب مرڈر ہوا تو گینگ وار کمانڈروں نے عزیر بلوچ کو اپنا سردار چن لیا، ایک شب ان کے نام ہوئی، راستے بند ہوئے، پولیس اور رینجرز اہلکار تقریب کی بے نام سی سیکیورٹی پر مامور تھے۔ لی مارکیٹ کے علاقے میں ایک شاندار تقریب میں پاگ بندی ’’دستار بندی‘‘ کی رسم ادا کی گئی ۔ بلوچی ڈانس ’’لیوا‘‘ کی بازگشت رات گئے علاقے میں سنائی دی۔

ایک دن مجھے کال آئی ’’چاچا عزیر بھائی جان نے آپ کو چیل چوک اپنے ہیڈ کوارٹر پر بلانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘ میں نے فوری کوئی جواب نہیں دیا ، گینگ وار کے حادثات، خونیں واقعات، وحشتوں اور دہشت انگیز وارداتوں نے اعصابی طور پر اہل علاقہ کو نڈھال کر دیا تھا، گریز پائی واحد راستہ تھا، یہ بھی اندیشہ تھا کہ کوئی دوست نما دشمن اس ملاقات کی ویڈیو وائرل نہ کر دے، مگر ہمارے دوستوں میں کوئی گینگ وار سے وابستگی کا کوئی داغ اپنے سینے پر سجائے ہوئے نہیں تھا، بیشتر لوگ سہمے ہوئے تھے، لیاری ٹاؤن محنت کشوں کے خوابوں کا قبرستان تھا، نوجوان بہیمانہ طریقے سے قتل ہوتے تھے، گھروں پر قبضہ گیری معمول تھا، لوگ نقل مکانی کر چکے تھے، بعض خاندانوں کی گینگ واریت ایک عفریت کے برابر تھی، کئی بار اخباری ڈیوٹی دینے کے بعد رات کے وقت گھر واپسی کا راستہ نہیں ملا ، میں بغدادی سیفی لائن اور کلری احمد شاہ بخاری روڈ کو کراس نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ گینگ وار گروپوں میں کشیدگی اور فائرنگ کے بعد سناٹا تھا۔

ایک رات میں نالہ ( کراؤن سنیما) کے اسٹاپ پر اترا تو میں نے دیکھا کہ سامنے جانے والی احمد شاہ بخاری والی سڑک جو میری مستقل گزرگاہ تھی اندھیروں میں گم ہے، مجھے عبدالمجید بلوچ پی پی رہنما کے گھر والوں میں سے کسی نے کہا کہ شاہ جی واپس جائیے ۔ جونا مسجد والی سڑک پر گینگ وار کارندوں نے گھروں کی چھتوں پر مورچے لگا رکھے ہیں، مارے جانے کا ڈر ہے۔ کسی کو نہیں جانے دے رہے۔ چنانچہ میں دوبارہ ماڑی پور روڈ گیا اور بس پر بیٹھ کر شیر شاہ اترا ، وہاں سے رکشے پر بیٹھ کر بابا صالح شاہ شیر شاہ حویلی میں بچوں کے درمیان جا پہنچا، میرا گھرانہ شیراز کامریڈ کے حملے کے بعد سے شیر شاہ منتقل ہوا ہے۔ بہر حال جب بھی وقت ملا گینگ وار کی تلخ یادداشتوں کے تذکرے آتے جائیں گے۔ یار زندہ صحبت باقی۔

نادر شاہ عادل
 

Post a Comment

0 Comments