Ticker

6/recent/ticker-posts

بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کہاں جائے گی؟

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نجی ہاؤسنگ کمپنی کے مالک کی جانب 460 ارب روپے کے عوض ان کے خلاف کراچی بحریہ ٹاؤن سے متعلق تمام مقدمات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ ملک کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عدالت نے اتنی بڑی رقم کے بدلے میں ملزمان کے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی پیشکش کو ماننے کے بعد اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں جائے گی۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گی کہ اس رقم کا کیا جائے جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہو گا۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا یہ رقم بعد میں سندھ حکومت کو بھی منتقل کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ تنازعہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کا معاملہ ہے جو کہ 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے اور اب یہ ابہام برقرار رہے گا کہ یہ پیسے کہاں منتقل کروائے جائیں گے۔ ’اس سوال کے جواب میں کہ کیا رقم ڈیم فنڈ میں بھی دی جا سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ ’اس رقم کا ڈیم فنڈ سے کوئی تعلق نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ سپریم کورٹ ایسا فیصلہ کرے گی۔‘

عوامی رد عمل
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے عوام کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ 460 ارب روپے بھی کافی بڑی رقم ہے اور ملکی فلاح کے لیے اہم ہے۔ عوام بھی تذبذب کا شکار دکھائی دی اور ٹویٹ کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش میں رہی کہ آخر یہ پیسہ جائے گا کہاں؟ ٹوئٹر پر ایک صارف طاہرہ نے سوال اٹھایا اگر اس رقم کا کچھ حصہ غریبوں کی فلاح کے لیے بھی استعمال ہو گا کہ نہیں خاص طور پر ان لوگوں کو یہ پیسہ دیا جائے گا کہ نہیں جن کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا۔ احمر مراد نے ٹویٹ میں کہا کہ کچھ دیر کے لیے بس یہ تصور کیجیے کہ بحریہ ٹاؤن نے کتنا زیادہ پیسہ کمایا ہو گا کہ وہ اتنی بڑی رقم دینے کو تیار ہیں۔

سعد سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments