کورونا وباء کے کنٹرول میں آنے کے بعد ملک میں زندگی آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی ہے۔ اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں بھی آہستہ آہستہ رفتار پکڑ رہی ہیں۔ زندگی معمول پر آرہی ہے۔ لیکن کراچی کی صورتحال مختلف ہے۔ حالیہ بارشوں نے کراچی کے شہریوں کا جو حشر کیا، وہ داستان الم ہر پاکستانی کی آنکھ اشکبار کر گئی ۔ شدید عوامی ردعمل کے باعث سندھ اور وفاقی حکومت دونوں ہی پریشان ہو گئے۔ پریشان تو مقتدر حلقہ بھی نظر آئے۔ اس جھٹکے نے سب کو احساس دلایا کہ کراچی کے لیے کچھ کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کیا جائے۔ ایک ان دیکھے ڈنڈے نے سب کو اکٹھا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسی بنا پر اہل کراچی سے ہمددری دکھانے کے لیے وزیر اعظم صاحب بھی چند گھنٹوں کے لیے کراچی تشریف لائے۔ حالانکہ شہر کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ وزیر اعظم کراچی میں ایک طویل مدت کے لیے مستقل قیام کرتے۔ بہرحال کراچی کے شہریوں کے شدید ردعمل نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کو چند گھنٹوں کے لیے سہی اکٹھا بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن مجبوری میں کیے گئے اقدمات میں خلوص نیت نہیں ہوتی۔ یہی کراچی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
اب خدا خدا کر کے نشیبی علاقوں سے بھی بارش کا پانی نکل گیا ہے۔ سڑکیں ٹریفک کے لیے بحال ہو چکی ہیں۔ کراچی نارمل زندگی کی طرف لوٹتا نظر آرہا ہے۔ لیکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ بحران میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ جب تک بجلی مسلسل بحال نہیں ہوتی ، کراچی میں کاروبار زندگی نارمل نہیں ہو سکتے ۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ قصور کس کا ہے اور کراچی کے شہری کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔کراچی والوں کو تو سب ہی قصور وار نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف تو کراچی کے لیے گیارہ سو ارب کے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ کراچی کے تمام مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ بعد ازاں اس پیکیج کی بھی جو درگت بنی وہ ہم سب نے دیکھی۔ خرچ ہونے سے پہلے ہی اس کی ایک ایک پائی نیلام ہوتی نظر آئی۔ دال ایسی جوتیوں میں بٹی کے گیارہ سو ارب کا جنازہ نکل گیا۔ مجھے یقین کامل ہے کہ سب کو اکٹھا بٹھانے کی خواہش رکھنے والے بھی پریشان ہوں گے کہ کیا ہوا ہے۔
ہم نے کیا سبق پڑھایا تھا اور انھوں نے کیا پڑھ لیا ہے۔ لیکن ساری صورتحال سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ کسی کو بھی کراچی کے شہریوں کا کوئی درد نہیں۔ یہ سب تماشائی ہیں۔ سب کراچی پر سیاست کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک قدم بڑھانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ایک عجب بے حسی ہر طرف نظر آئی ہے۔ کراچی کے عوام میں اضطراب اور بے چینی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں کراچی میں ہونے والے چند اجتماعات اس بات کی طرف صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ عوام غصہ میں ہیں۔ وہ کسی پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں۔ ایم کیو ایم کی ریلی میں بھی لوگوں کی تعداد مناسب تھی۔ جماعت اسلامی کی ریلی میں بھی لوگ کافی تعداد میں آئے۔ اس سے پہلے چند مذہبی اجتماعات میں بھی لوگ بڑی تعداد میں آئے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کے لوگ موجودہ نظام اور موجودہ صورتحال سے تنگ آگئے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے غصہ کا اظہار چاہتے ہیں۔ وفاقی حکومت لاکھ یہ بیانیہ بنائے کہ قصور سندھ حکومت کا ہے۔ لیکن شاید کراچی کے عوام وفاقی حکومت کو بھی بری کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ ہمدردانہ بیانات اور آنیاں جانیاں دکھا کر اپنی ذمے داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ بالخصوص لوڈ شیڈنگ نے گزشتہ چھ ماہ سے کراچی کے گھریلو اور کاروباری صارفین کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ بارش کا پانی تو چند دن کے لیے آیا اور چلا گیا۔ لیکن لوڈشیڈنگ تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ گرمیوں کے آغاز سے کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا خوفناک سپیل شروع ہے اور اب تک جاری ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی کی کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ ملازمین بے روزگار ہو رہے ہیں۔ پہلے کراچی میں لوڈ شیڈنگ ایسے علاقوں تک محدود تھی جہاں غریب لوگ رہتے ہیں۔ ایک جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ یہ لوڈ شیڈنگ نہیں لوڈ مینجمنٹ ہے۔ ان علاقوں میں بجلی بند کی جاتی ہے جہاں بجلی چوری زیادہ ہے۔ جہاں لوگوں نے کنڈے ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن اب تو صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ لوڈ مینجمنٹ کا بہانہ بھی ختم ہو گیا ہے اور کھلم کھلا لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
امیر اور غریب سب برابر ہو گئے ہیں۔ ویسے کراچی میں امیر و غریب کا فرق بلا امتیاز ختم ہوا ہے۔ بارش کا پانی بھی امیر علاقوں میں اسی آب وتاب سے تباہی مچاتا رہا ہے جیسے غریب علاقوں میں مچا رہا تھا۔ اسی طرح اب لوڈ شیڈنگ بھی برابر تباہی مچا رہی ہے۔ یہ بحث بھی فضول ہے کہ گیس کی کمی ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ اب پاکستان کے پاس وافر بجلی موجود ہے۔ ہم اپنی مرضی سے کم بجلی بنا رہے ہیں۔ ورنہ بجلی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کراچی کے عوام کو یہ کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے کہ ملک میں گیس کی کمی ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ میری ارباب اختیار اور ارباب اقتدار سے گزارش ہے ( نوٹ کر لیں کراچی کی مخصوص صورتحال میں ارباب اختیار اور ارباب اقتدار الگ الگ ہیں ) کہ وہ کراچی کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ کراچی کے شہریوں کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے اعلی سطح پر مشاورت کا آغاز کیوں نہیں ہو سکتا؟ کراچی کے عوام کے صبر کا امتحان نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
0 Comments