Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے سمندر برد ہونے کا خطرہ

انڈس ڈیلٹا اور ساحلی پٹی کواگر سمندری پانی سے کاٹنے والی موجودہ صورتحال جاری رہتی ہے تو قوی امکان ہے کہ پاکستان کا مالی دارالحکومت کراچی 2060 ء تک سمندر برد ہو جائے، یہ انکشاف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (NIO) کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں سینیٹ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سندھ کے دو اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کے 2050ء تک سمندر برد ہونے کے امکانات ہیں، باقی کراچی شہر جس کی آبادی دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، 2060ء تک سمندر برد ہو جائے گا اور اس طرح اس شہر کے دو کروڑ لوگ کسی نئی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوں گے۔ ماحولیاتی ماہرین نے ان علاقوں میں اس قیامت کا ذمہ دار موسمیاتی تغیر اور ٹمپریچر کے اتار چڑھائو کے علاوہ ساحلی علاقوں میں بغیر منصوبہ بندی کے کئے جانے والے ترقیاتی کاموں کو قرار دیا ہے۔ 

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سمندر کی سطح مسلسل بلند ہونے کے نتیجے میں سندھ کے تین شہر یعنی کراچی، بدین اور ٹھٹھہ خطرے میں ہیں لہٰذا اس خطرے سے بچنے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کے دیگر ڈیلٹائوں (Deltas) کی طرح انڈس ڈیلٹا میں بھی سمندری جارحیت ایک حقیقت ہے۔ ان کے مطابق ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع میں کئی ساحلی علاقے پہلے ہی بڑھتی ہوئی سمندری سطح کی وجہ سے سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کی بریفنگ کے دوران این آئی او کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی کے علاقے ملیر کا بھی ایک علاقہ سمندر برد ہو چکا ہے لہٰذا کراچی شہر تب تک محفوظ نہیں ہو گا جب تک اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدامات نہیں کئے جائیں گے۔ این آئی او کے سربراہ نے سینیٹ کمیٹی سے خطاب کے دوران خبردار کیا کہ بلوچستان صوبہ کے ساحلی شہر بشمول گوادر پورٹ جسے چین بین الاقومی سمندری پورٹ کے طور پر ترقی دے رہا ہے، کو بھی سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے سونامی طوفان کا خطرہ درپیش ہے۔ 

سینیٹ کی اس کمیٹی میں شرکت کرنے والے حکومت بلوچستان کے ایک افسر نے انکشاف کیا کہ سمندری جارحیت کی وجہ سے گزشتہ 35 سال میں بلوچستان کی 2 کلو میٹر ساحلی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔ پاکستان میں سمندری ساحل کی زمین سمندر برد ہونے کے بارے میں آئی یو سی این، ماحولیات کی وزارت اور یونائیٹڈ نیشن ایمرجنسی فورس (UNEF) کی طرف سے تیار کی گئی قومی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ساحلی علاقوں میں غیر منظم انداز میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کا ساحلی علاقہ سمندر برد ہو رہا ہے۔ یہ علاقے عام سمندری طوفان اور عربی سمندر سے اٹھنے والے طوفانوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق اگر آئندہ 50 سال تک پاکستان کے سمندری ساحل پر سمندری سطح موجودہ رفتار سے بڑھتی رہی تو سمندری سطح موجودہ سطح سے 50 ملی میٹر 5cm بلند ہو گی اگر ایسا ہوتا ہے تو سمندری پانی ساحلی زمین کا کافی حصہ اپنے اندر سمولے گا۔ 

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دریائے سندھ ہمالیہ کے پہاڑوں سے بڑے پیمانے پر گدلا پانی ساتھ لاتا ہے جو نیچے زمین پر اس طرح جمع ہو جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا وجود میں آجاتا ہے مگر دریائے سندھ پر ڈیم بنانے کی وجہ سے جہاں یہ ڈیلٹا کافی کم ہو جاتا ہے وہاں نیچے کی طرف دریائے سندھ کے پانی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے اوپر والے حصے میں انجینئرنگ ورکس کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا چھوٹا ہو گیا ہے، دریا کے اوپر والے حصے میں ڈیم بننے کی وجہ سے اوپر والے حصے سے کم پانی نیچے کی جانب بہنے لگا ہے جس کی وجہ سے طوفان کے دوران سمندری طغیاتی آجاتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سمندری پانی کی طغیانی کے نتیجے میں اس علاقے سے لوگ بڑے پیمانے پر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں، اس ایشو پر کی گئی اسٹڈی کے دوران یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ پاکستان کے ساحل کی جیوگرافی لاثانی ہے، اس لئے یہاں قدرتی خطروں مثلاً زلزلوں، تیز بارش اور سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا کافی امکان رہتا ہے۔ 

سندھ یونیورسٹی کے ارتھ سائنسز کے پروفیسر سرفراز حسین نے این آئی او کے سربراہ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ کراچی، بدین اور ٹھٹھہ سمندر برد ہو جائیں گے۔ بریفنگ میں مقامی این جی او پاکستان فشر فوک فورم کے سربراہ نے سینیٹ کمیٹی کی بریفنگ میں حصہ لیتے ہوئے این آئی او کے سربراہ کے اس انکشاف کو ملک کیلئے Wake up Call قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 1956 سے اب تک اس صورتحال کی وجہ سے سندھ کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔  

جی این مغل

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments