پاکستان کے سب سے بڑے اور کاروباری مرکز قرار ديے جانے والے شہر کراچی میں گٹکا با آسانی دستیاب ہے اور وہ بھی انتہائی سستے داموں پر۔ کم آمدنی والے علاقوں میں گٹکے کے مہلک اثرات کے حوالے سے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ ایک تحقیق کے بعد بتایا گیا ہے کہ پاکستان اُن ملکوں میں شامل ہے، جہاں منہ کے کینسر کی شرح سب سے بُلند ہے۔ گٹکا دراصل چھالیہ، تمباکو، خوشبو اور چونے کا ايک ايسا مرکب ہے، جو جان لیوا بھی ہے اور جسے منہ کے کینسر کا ابتدائی سبب قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کئی بار پابندیوں کے باوجود شہر میں يہ آج بھی با آسانی دستياب ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے آئی جی پولیس، کراچی میونسپل کارپوریشن اور اینٹی ان کروچمینٹ اداروں کو گُٹکے کی فروخت کے خلاف فوری ایکشن اور سخت کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ جسٹس منیب اخترکی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے مین پوری، پان اور گٹکے کی تیاری اور فروخت پر پابندی سے متعلق دائر درخواست پر کے ایم سی اور سندھ پولیس کے سربراہان سے جواب طلب کیا ہے اور يہ حکم بھی ديا ہے کہ جلد از جلد اس پر رپورٹ پیش کی جائے۔ درخواست گزار مُزمل ممتاز نے موقف اختیارکیا تھا کہ مضر صحت گٹکا اور مین پوری کی فروخت اور تیاری کی روک تھام کے لیے صوبائی پولیس اور محکمہ صحت ناکام رہے ہيں، جس وجہ سے شہریوں میں منہ، زبان اور حلق میں کینسر جیسی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ دو قسم کے تمباکو کی مصنوعات صحت کے لیے انتہائی مضر ہيں۔
ممتاز نے عدالت سے اپیل کی کہ متعلقہ اداروے کو ایسے کاروبار روکنے کے ليے ذمہ دار قرار ديا جائے، جو عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ درخوست گزار نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ عدالت نے اس سے قبل بھی گٹکے کی تیاری اور فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کيے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ غیر قانونی طور پر کھلے عام ان مصنوعات کی فروخت فٹ پاتوں پر شہر بھر میں جاری ہے۔ ممتاز نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ گٹکے اور مین پوری کی فروخت مقامی پولیس کے سر پرستی ميں جاری ہے۔
درخواست گزار ممتاز نے عدالت سے درخواست کی کہ شہر ميں گليوں، سڑکوں اور فٹ پاتوں پر بنائی گئی دکانوں کا خاتمہ کيا جائے۔ اسی دوران آئی جی سندھ کی جانب سے عدالت کو گٹکے اور مین پوری کے فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی ارسال کی گئی، جس میں بتایا گیا ہے کی ان کے پاس تقریباً دو سو ايسے کیسز رجسٹرڈ ہیں جو اس کاروبار سے منسلک افراد کے خلاف درج ہیں۔ جج نے اس رپورٹ پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کيا اور کہا کہ پولیس اس ضمن ميں کوئی ٹھوس کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
0 Comments